• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 65468

    عنوان: داڑھی پر کونسا رنگ لگانا جائز ہے ؟

    سوال: بازار میں کئی طرح کے رنگ موجود ہیں کیا ہمیں رنگ ملاکر لگانا چاہیے؟ رہنمائی فرمائیں۔ میری عمر ۳۹ سال ہے داڑھی رکھے ہوئے سات سال ہوئے گئے ہیں، لیکن میں نے سفید بالوں میں کوئی رنگ نہیں لگایا مہندی بھی نہیں لگائی۔

    جواب نمبر: 65468

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 785-783/N=8/1437 اگر آپ کی داڑھی کے سارے بال یا کچھ بال سفید ہوچکے ہیں تو آپ ان میں خضاب کرسکتے ہیں؛ بلکہ کرنا چاہیے؛ کیونکہ سفید بالوں میں خضاب کرنا افضل ومستحب ہے، البتہ سیاہ خضاب نہ کیا جائے، سرخ یا کوئی اور خضاب کیا جائے۔ اور مارکیٹ میں جو فیشن کے کلر رائج ہیں اور فیشن پرست نوجوان طبقہ کالے بالوں میں وہ کلر کرتا ہے، ان سے بھی بچنا چاہیے تاکہ فساق وفجار اور فیشن پرست لوگوں کے ساتھ مشابہت لازم نہ آئے۔ قال الطحطاوي في حاشیتہ علی الدر (کتاب الخنثی، مسائل شتی ۴: ۳۶۳، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند) عن شرح المشارق للأکمل: والثاني أن الخضاب أفضل أم ترکہ؟ قال بعضہم: ترکہ للنہي عن تغییر الشیب، وقال آخرون: الخضاب افضل؛ لأن جماعة من الصحابة رضي اللہ عنہم خضبوا، کان أبوبکر رضي اللہ عنہ یخضب الحناء، وبعضہم کان یخضب بالزعفران، روي ذلک عن علي رضي ا للہ عنہ․․․․، ومذہبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن، کما في الخانیة․ قال النووي: ومذہبنا استحباب خضاب الشیب للرجل والمرأة بصفرة أو حمرة، وتحریم خضابہ بالسواد علی الأصح؛ لقولہ علیہ السلام: ”غیّروا ہذا الشیب، واجتنبوا السواد“ اھ، وقال اللکنوي في التعلیق الممجد (باب الخضاب ص ۳۹۲) وأما الخضاب بالسواد الخالص فغیر جائز کما أخرجہ أبوداوٴد والنسائي وابن حبان والحاکم وقال: صحیح الإسناد عن ابن عباس رضي اللہ عنہ مرفوعاً: ”یکون قوم یخضبون في آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام لا یریحون رائحة الجنة“، ․․․ ومن ثم عد ابن حجر المکي في الزواجر الخضابَ بالسواد من الکبائر، ویوٴیدہ ما أخرجہ الطبراني عن أبي الدرداء رضي اللہ عنہ مرفوعاً: من خضب بالسواد سود اللہ وجہہ یوم القیامة“․․․ اھ، وقال السہارنفوري في بذل المجہود (باب ما جاء في خضاب السواد ۱۷: ۹۹، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) في شرح الحدیث المذکور أعلاہ فیما نقلناہ عن التعلیق الممجد: وفي الحدیث تہدید شدید في خضاب الشعر بالسواد، وہو مکروہ کراہة تحریم اھ، وقال الکشمیري في العرف الذي (باب ما جاء في الخضاب: ۳/ ۲۵۸) الخضاب في اللغة اللون، ولا یجب أن یکون سوادًا، وفي الحدیث النہي الشدید عن الخضاب الأسود الذي لا یمیز بہ بین الشیخ والشاب اھ، وقال الخطیب التبریزي في مشکاة المصابیح (کتاب اللباس، الفصل الثاني، ص: ۳۷۵، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) عن ابن عمر رضي اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم رواہ أحمد وأبوداود اھ، وقال القاري في المرقاة: ”من تشبہ بقوم“ أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار إلخ، نیز احسن الفتاوی (۸: ۳۵۶-۳۷۵)، فتاوی رشیدیہ (ص ۴۸۹)، فتاوی دارالعلوم دیوبند (۱۶: ۲۳۹-۲۴۵) اور امداد الفتاوی (۴: ۲۱۸) وغیرہ دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند