• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 322

    عنوان:

    کیا اسلام بھیک مانگنے کی اجازت دیتا ہے؟

    سوال:

    مجھے یہ پوچھنا ہے کہ بازاروں میں کچھ لوگ بھیک مانگتے ہیں، کیا اسلام بھیک مانگنے کی اجازت دیتا ہے؟

    اور کچھ لوگ مسجد میں بھی چندہ مانگتے ہیں ، کیا یہ جائز ہے؟ شکریہ!

    جواب نمبر: 322

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 36/د=36/د)

     

    اسلام میں ایسے شخص کو جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت سہل بن الحنظلیة سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ اکٹھا کررہا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسے شخص کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سوال کررہا ہے تو وہ جہنم کا انگارہ جمع کررہا ہے، اب اس کی مرضی چاہے زیادہ جمع کرے یا کم۔ (مشکوٰة)

     

    دوسری طرف اسلام نے صاحب حیثیت لوگوں کے ذمہ رکھا ہے کہ ضرورت مند لوگوں کے حالات کا تفقّد کریں اور ان کی ضروریات کو پوری کرنے کی فکر کریں۔

     

    لہٰذا ، راستوں اور بازاروں میں جو لوگ پیشہ ور طور پر مانگتے ہیں، مانگنا انھوں نے پیشہ بنالیا ہے، اگر ان کو نہ دیا جائے تو کوئی گناہ نہ ہوگا۔ او راگر قرائن سے اندازہ ہو کہ ضرورت مند مانگ رہا ہے تو حسب حیثیت اس کی مدد کردے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم ! تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے: اَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ سوال کرنے والے کو جھڑکو مت، اور اگر گنجائش نہ ہو تو نرمی سے عذر کردے۔

     

    مسجد میں اپنے لیے سوال کرنا ناجائز ہے۔ البتہ کسی کار خیر میں چندہ کے لیے بطورِ ترغیب اعلان کردینا یا سخت ضرورت مند کے لیے دوسرا شخص لوگوں کو اطلاع کردے، اس کی اجازت ہے، لیکن مسجد میں چندہ کرنا جس میں لوگوں کی گردنیں پھلانگنی پڑے اور نماز و تلاوت کرنے والوں کی عبادت میں خلل پیدا ہو یا نمازیوں کے سامنے گذرنا پایا جائے، درست نہیں ہے۔ ایسا چندہ مسجد کے دروازہ پر کیا جائے تو گنجائش ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند