• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 176193

    عنوان: زمین خریدنے کے بعد پیمائش میں زیادہ نکلنے والی زمین کا حکم کیا ہے ؟

    سوال: ایک ضروری سوال کا جواب مطلوب ہے ، ہمارے ایک جاننے والے نے کافی پہلے ایک زمین خریدی تھی دوسوگز تھی اور قیمت بھی دوسو گز کی ادا کی تھی اب ایک زمانے کے بعدجب اس خریدی ہوئی زمین کو استعمال میں لانے کے لئے ناپا گیا تو تیس گز زمین زیادہ نکلی یعنی کہ کل زمین دو سو تیس گز نکلی۔ اب سوال یہ ہے کہ جو تیس گز زمین زیادہ نکلی ہے وہ خریدنے والے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں جبکہ بائع جس نے زمین بیچی تھی اس کا انتقال ہوچکا ہے یا تیس گز کی مزید رقم بائع کے ورثاء کو دینا ضروری ہے ؟ واضح رہے کہ خریدنے والے کی رجسٹری پر دوسوگز ہی درج ہے ۔تفصیل سے رہنمائی فرمائیں۔ مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 176193

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:506-88T/L=6/1441

    صورتِ مسئولہ میں اگر زمین کی قیمت الگ الگ گز کے حساب سے متعین کی گئی ہے (مثلاً ہر گز کی قیمت اتنی ہوگی)تو زائد تیس گز کی قیمت کا ادا کرنا بھی ضروری ہے اگر بائع کی وفات ہوچکی ہو تو اس کے ورثاء تک قیمت پہونچادی جائے اور اگر زمین کی قیمت یکبارگی متعین کی گئی ہے الگ الگ کے طور پر ہر گز کا ذکر نہیں ہوا تو زائد تیس گز کی قیمت دینا ضروری نہیں ،اگر دیدے تو بہتر ہے ۔

    لو بیعت عرصة علی أنہا مائة ذراع بألف قرش فظہر أنہا خمسة وتسعون ذراعا فالمشتری مخیر إن شاء ترکہا وإن شاء أخذ تلک العرصة بألف قرش وإذا ظہرت زائدة أخذہا المشتری أیضا بألف قرش فقط وکذا لو بیع ثوب قماش علی أنہ یکفی قباء وأنہ ثمانیة أذرع بأربعمائة قرش فظہر سبعة أذرع خیر المشتری إن شاء ترکہ وإن شاء أخذ ذلک الثوب بأربعمائة قرش وإن ظہر تسعة أذرع أخذہ المشتری بتمامہ بأربعمائة قرش أیضا.کذلک لو بیعت عرصة علی أنہا مائة ذراع کل ذراع بعشرة قروش فظہرت خمسة وتسعین ذراعا ومائة وخمسة أذرع خیر المشتری إن شاء ترکہا وإن شاء أخذہا إذا کانت خمسة وتسعین ذراعا بتسعمائة وخمسین , وإذا کان مائة وخمسة أذرع بألف وخمسین قرشا. وکذا إذا بیع ثوب قماش علی أنہ یکفی لعمل قباء وأنہ ثمانیة أذرع کل ذراع بخمسین قرشا فإذا ظہر تسعة أذرع أو سبعة أذرع کان المشتری مخیرا إن شاء ترک الثوب وإن شاء أخذہ إذا کان تسعة أذرع بأربعمائة وخمسین وإن کان سبعة أذرع بثلاثمائة وخمسین قرشا.(مجلة الأحکام العدلیة ص:45-46،الناشر: نور محمد، کارخانہ تجارتِ کتب، آرام باغ، کراتشی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند