• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 150996

    عنوان: شیئر مارکیٹ میں اِنٹراڈے ٹریڈنگ (تجارت)

    سوال: میں پہلے نہیں جانتا تھا کہ اِنٹراڈے ٹریڈنگ (intraday trading) شیئر مارکیٹ میں حرام ہے، اور انٹراڈے ٹریڈنگ شروع کرنے سے پہلے اپنے یہاں کے مفتی صاحب سے میں نے پوچھا بھی تھا تو انہوں نے بتایا تھا کہ جائز ہے۔ شاید وہ پرانا بزنس (ٹریڈنگ) سمجھے ہوں۔ میں نے انٹراڈے ٹریڈنگ شروع کیا اور تقریباً مجھے Rs.80000 کا نقصان ہوا اور پھر مجھے معلوم پڑا کہ انٹراڈے ٹریڈنگ اسلام میں حرام ہے۔ میں اسلامی شیئرز اور اِنویسٹمینٹ (سرمایہ کاری) میں ڈیل (سودا) کرتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ اپنے پاس شیئرز کی ڈیلیوری (دینا/ پہنچانا) تین دن بعد آتی ہے ڈیمیٹ اکاوٴنٹ (demat account) میں، تو جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو کیسے بیچ سکتے ہو۔ پھر میں نے انٹراڈے ٹریڈنگ تقریباً ۸/ مہینوں تک بند کر دیا، لیکن میں انٹراڈے کا نظریہ سمجھ گیا تھا۔ اور میں نے سوچا کہ یار جتنا نقصان ہوا ہے اُتنا recover (رِی کور /دوبارہ حاصل کرنا) کرلیتا ہوں، پھر چھوڑ دوں گا، بس اسی نیت سے انٹراڈے ٹریڈنگ شیئر مارکیٹ کو شروع کیا تھا اور اس میں مجھے Rs.52000 کا فائدہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹریڈنگ کی وجہ سے جو Rs.52000 اِن کم ہوئی، وہ میرے لیے جائز ہے؟ اور اگر نہیں، تو براہ کرم اس کا حل بھی بتائیں۔ اور کیا یہ پیسہ میں اپنے بھائی کو دے سکتا ہوں؟ لیکن اس کی بیوی کے پاس نصاب جتنا سونا یا چاندی کا ہوگا۔

    جواب نمبر: 150996

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 878-860/N=8/1438

     (۱) : انٹرا ڈے ٹریڈنگ میں ڈیلیوری سے پہلے خرید وفروخت کی صورت پائی جاتی ہے اور یہ ایک طرح جوا اور سٹہ بازی کی شکل ہے ؛ اس لیے شیئرز مارکیٹ میں انٹرا ڈے ٹریڈنگ کو ناجائز قرار دیا گیا ہے؛ البتہ اس میں آپ نے جو نفع کمایا ہے، وہ آپ کے نقصان وخسارے سے کم ہے، گویا ۵۲/ ہزار نفع کے باوجود آپ کا اصل سرمایہ وصول نہیں ہورہا ہے؛ لہٰذا اگر آپ ۵۲/ ہزار نفع خود رکھ لیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اور اگر آپ غریبوں کو دینا چاہیں تو یہ بہت بہتر ہے۔ اور اگر خسارے کی تلافی کے بعد حاصل شدہ نفع ۵۲/ ہزار روپے ہے تو آپ یہ سارا نفع بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں ، اپنے استعمال میں نہ لائیں۔

     (۲) : اگر آپ کا بھائی غریب ہے تو آپ بہ قدر ضرورت بھائی کو بھی دے سکتے ہیں۔ اور شریعت میں میاں بیوی دونوں کی املاک الگ الگ شمار ہوتی ہیں؛ اس لیے آپ کا بھائی محض بیوی کے زیورات کی وجہ سے مال دار شمار نہ ہوگا؛ بلکہ آپ کے بھائی کی غربت ومال داری میں خود اس کی ملکیت کی چیزوں کا اعتبار ہوگا، یعنی: اگر اس کے پاس حوائج اصلیہ سے زائد اور قرضوں سے فارغ ۶۱۲/ گرام ۳۶۰/ ملی گرام چاندی یا اتنی مالیت کا کوئی مال نہیں ہے تو وہ شریعت کی نظر میں غریب ہے ورنہ وہ مال دار ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند