• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 150048

    عنوان: قسطوں میں خرید وفروخت؟

    سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ.... مثلا عابد کوایک فریج کی ضرورت ہے لیکن اس کی پاس نقدرقم نہیں ہے کہ وہ فریج کوخریدسکے اور وہ عمرو(عمروایک ایساشخص ھے جو لوگوں کوان کی آرڈر اور پسند کے مطابق بازارسے چیزیں خریدکر قسطوں پر زیادہ منافع کے ساتھ بیچتے ہیں اورلوگوں میں اسی کام کی نسبت مشہور ہے ) سے کہتا ہے کہ آپ میرے لئے ایک فریج خرید لیں توعمرو بازار جاکر ایک فریج 40000 پر خرید کر عابدکو قسطوار 50000 پر دے دیتے ہیں، اور قسطوں کاتعین وغیرہ سب کچھ کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا مسئلہ میں زیداورحارث کااختلاف ہے ، زید کہتاہے کہ مذکورہ صورت جائزہے کیونکہ یہ قسط کاایک صورت ہے اورقسط میں زیادہ منافع لیناجائز ہے ، لیکن حارث کہتا ہے کہ یہ صورت ناجائز ہے اس لئے کہ عابد نے عمروسے کہاتھا"آپ میرے لئے فریج خریدلیں" جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عابد عمرو سے فریج بطورقرض کے مانگ رہا ہے اورعمرویہ فریج اپنے لئے نہیں بلکہ عابد کے لئے خریدلیتا ہے تویہ قرض کاصورت ہوا اورقرض سے نفع اٹھاناحرام ہے ... کل قرض جرنفعاالخ. اوراگر مذکورہ صورت ناجائز ہے تو جائز طریقہ کارکیاہوگا؟ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ کی پوری وضاحت باحوالہ عنایت فرمائیں۔ نوٹ:عابدکاعمرو سے یہ کہناکہ آپ میرے لئے فریج خریدلیں..آیا یہ مسئلہ توکیل کاتونہیں بنتا؟

    جواب نمبر: 150048

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 859-858/H=7/1438
    یہ کہنا کہ ”آپ میرے لیے ایک فریج خرید لیں“ یہ توکیل ہے ایسی صورت میں عمرو کا چار ہزار روپئے میں فریج خرید کر پانچ ہزار میں عابد کو دینا جائز نہیں البتہ اگر عمرو عابد سے صاف کہہ دے کہ میں بازار سے فریج خریدوں گا اور پھر آپ کو فروخت کروں گا اور عمرو چار ہزار میں خریدکر پانچ ہزار میں قسطوار ادائیگی صاف صاف طے کرکے عابد کو فروخت کردے تو یہ صورت جواز کی ہے، الغرض بحیثیت وکیل عمر فریج خریدکر عابد کو لاکر دیتا ہے تو نفع لینا درست نہیں اور خریدکر پھر عمرو کو بیچتا ہے اور وکالت سے صاف منع کردیتا ہے تو نفع لینا درست ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند