• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 150042

    عنوان: لون پر قسطوں میں گاڑی خریدنا کیسا ہے؟

    سوال: لون پر (قسطوں میں) گاڑی خرید کر اس سے تجارت کرنا کیسا ہے؟ کیا یہ سود کے درجہ میں ہے؟ کیا اس کی کوئی جائز صورت ہے؟ اگر ہے تو مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 150042

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 640-609/N=7/1438

    (۱- ۳) : آج کل مارکیٹ میں لون پر گاڑی خریدنے کی جو صورت رائج ہے، اس میں بینک سے سودی قرض کا معاملہ ہوتا ہے، یعنی: بینک سودی قرض فراہم کرتا ہے اور شوروم گاڑی فروخت کرتا ہے، اس میں بینک قسطوں پر گاڑی فروخت نہیں کرتا ہے ؛ اس لیے کاروبار کرنے کے لیے بینک سے سودی قرض کے معاملہ کے ساتھ گاڑیاں خریدنا جائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے، احادیث میں سود لینے والے اور سود دینے والے دونوں پر لعنت آئی ہے ؛ البتہ اگر کوئی شوروم براہ راست قسطوں پر گاڑیاں فروخت کرتا ہو، اس میں بینک کا کوئی واسطہ نہ ہو اور ما بقیہ رقم قسطوں کی شکل میں شوروم ہی کو ادا کرنا ہوتا ہو تو یہ صورت جائزوہوسکتی ہے ؛ لیکن عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔

    ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (سورہ بقرہ، آیت: ۲۷۵)، ﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ﴾ (سورہ بقرہ، آیت: ۲۷۶)، ﴿وَاَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ﴾ کان الربا محرمًا علیہم، کما حرم علینا ﴿وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل ۱: ۲۰۲، سورہ آل عمران، آیت: ۱۳۰)، ﴿یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ، وَاتَّقُوْا النَّارَ الَّتِيْ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ (سورہ آل عمران، آیت: ۱۳۰، ۱۳۱)، کان أبوحنیفةیقول: ہي أخوف آیة في القراٰن حیث أوعد اللّٰہ المؤمنین بالنار المعدة للکافرین، إن لم یتقوہ في اجتناب محارمہ (مدارک التنزیل۱: ۲۹۱)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء ( مسلم شریف ۲: ۷۲،، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الابصار مع در وشامی ۷: ۳۹۸ - ۴۰۰، مطبوعہ مکتبہ: زکریا دیوبند)، وأما ربا النسیئة فہو الأمر الذي کان مشہودًا متعارفًا في الجامعیة، وذٰلک أنہم کانوا یدفعون المال علی أن یأخذوا کل شہر قدرًا معینًا، ویکون رأس المال باقیًا (تفسیر کبیر ۷: ۹۱)، کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا، کما علم عما نقلہ عن البحر ( شامی ۷: ۳۹۵)، الفضل المشروط في القرض ربا محرم لا یجوز للمسلم أخذہ من أخیہ المسلم أبدًا، لإجماع المجتہدین علی حرمتہ فلم یقل أحد منھم بجواز الفضل المشروط فی القرض (إعلاء السنن، رسالة کشف الدجی علی حرمة الربا ۱۴: ۵۳۳ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشی)، الربا ہو القرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ (حجة اللّٰہ البالغة، الربا سحت باطل ۲: ۲۸۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند