• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 149175

    عنوان: بغیر لکھا پڑھی و بغیر گواہ کے لین دین کرنا؟

    سوال: سوال: امید ہے کہ مزاج مع الخیر ہوگا۔ ایک مسئلہ کے سلسلہ میں آپ سے افتاء طلب ہے ، اللہ تعالی آپ کے علم میں اضافہ فرمائے ، جزائکم اللہ خیر۔ مسئلہ: (۱)زید اور بکر کے درمیان ایک زمین کا سودا ستمبر ۲۰۱۴ میں طے ہوا تھا ،یہ زمین ۴ مختلف لوگوں کی مشترکہ زمین ہے ، زید اس میں ایک چوتھائی کا مالک ہے ، یعنی بکر نے زید سے اس کے حصہ (share) کوخریدا ۔ (۲) اسی وقت بکر نے زید کو اس حصہ کی قیمت کی ایک قسط پیشگی رقم (بیعانہ) کے طور پر دیدی، یہ رقم بغیر کسی لکھا پڑھی کے دی تھی، مگر زید کا لڑکا موجود تھا اس نے یہ رقم اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور اسے Count بھی کیا تھا،یہ معاملہ زید کے گھر میں ہوا تھا اس لیے زید کے گھر والوں کو اس کی معلومات ہیں زید کے اصرارکرنے کے باوجود کہ یہ لین دین بغیر لکھا پڑھی کے ٹھیک نہیں ہے تو بکر نے کہا کہ ایسارپاؤتی(بیع نامہ) کے بجائے رجسٹری کرنا ہے ، لہذا اس کی ضرورت نہیں، ۶ مہینے کی تو بات ہے ،بکر نے تین مہینے بعد دوسری قسط دسمبر ۲۰۱۴ میں دیدی، (۳)بقیہ رقم کی اخری قسط اپریل ۲۰۱۵ میں دینا تھا اور رجسٹری ہونی تھی۔ (۴)یہ ساری باتیں زید نے اپنے دو غیر مسلم شریکوں کو بتائی اور اپنے خاندان اورچند دوستوں کو اس بارے میں بھی بتایاتھا۔ (۵)مگرمئی۲۰۱۵ میں بکر نے زمین خریدنے سے انکار کردیا، زید نے کہا کہ میں تو رقم خرچ کر چکا تو بکر نے کہا کہ جب زمین فروخت ہو گی تو ادا کر دینا، (۶) ایک سال کے عرصہ بعد مئی ۲۰۱۶ میں بکر نے پیسوں کا تقاضہ کردیا جب کہ زمین فروخت نہیں ہوئی، اب بکر کہتاہے کہ اس نے زمین کا کوئی سودا نہیں کیا تھا بلکہ اس نے یہ رقم قرض حسن کے طور پر دی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بھی ہو بغیر لکھا پڑھی کے لین دین نہیں ہونا چاہیئے تھا ،اب اس مسئلہ کو کس طرح سے حل کیا جائے ۔ کیا زید کے گھروالوں کی اور اس کے دوستوں کی شہادت قابل قبول ہوگی ؟ اللہ یحفظکم ویرعاکم

    جواب نمبر: 149175

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 504-441/sd=6/1438

    آپ کا مسئلہ نزاعی ہے، نزاعی معاملات میں فریقین کا بیان اُن کے دستخط سے آنا چاہیے۔ بہرحال ! بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اگر بکر بیع کا منکر ہے، تو زید کے حق میں اُس کے بیٹے اور باپ اور بیوی کے علاوہ باقی رشتہ داروں کی گواہی معتبر ہوگی، اسی طرح اُس کے دوستو ں کی گواہی بھی معتبر ہوگی، بشرطیکہ دوستی میں زیادہ بے تکلفی نہ ہو، یعنی: ایسی دوستی نہ ہو کہ ہر ایک دوسرے کی مال میں اُس کی اجازت کے بغیر بلا تکلف تصرف کرتا ہو،اس لیے کہ ایسے دوست کی گواہی دوست کے حق میں شرعا معتبر نہیں ہے ، واضح رہے کہ گواہی انھیں لوگوں کی معتبر ہوگی جن میں گواہ بننے کی شرائط متحق ہوں، جن میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ گواہ نے خود بیع کے معاملہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، محض زید کی خبر پر اعتماد کر کے گواہی کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ قال الحصکفي : والشاہد لہ أن یشہد بما سمع أو رأی في مثل البیع، ولو بالتعاطي، فیکون من المرئي والاقرار۔۔۔قال ابن عابدین: وفي الہامش عن الدرر : ویقول أشہد أنہ باع أو أقر ؛ لأنہ عاین السبب، فوجب علیہ الشہادة بہ کما عاین، وہذا اذا کان البیع بالعقد ظاہراً، وان کان بالتعاطي، فکذلک، لأن حقیقة البیع مبادلة المال بالمال، قد وجد۔۔۔۔۔۔وقال الحصکفي : ولا یشہد أحد بما لم یعاینہ بالاجماع الا في عشرة ۔۔۔وان فسر الشاہد للقاضي أن شہادتہ بالتسامع۔۔۔۔۔رُدَّت ۔۔۔ وقال :وأما الصدیق لصدیقہ فتقبل الا اذا کانت الصداقة متناہیة بحیث یتصرف کل في مال الآخر ۔۔وقال الحصکفي: لا تقبل ۔۔۔۔والزوجة لزوجہا وہو لہا۔۔۔والفرع لأصلہ وبالعکس ۔۔۔( الدر المختار مع رد المحتار: ۵/۴۶۷۔۔۔۴۷۸، ط: کتاب الشہادات، ط: دار الفکر، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند